باپ کے ہاتھوں ڈیڑھ سالہ معصوم بیٹی قتل، ملزم فرار

0
rape-jpg
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (ویب ڈیسک) راولپنڈی کے علاقے تھانہ چکلالہ کی حدود میں دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں ایک باپ پر الزام ہے کہ اُس نے اپنی ڈیڑھ سالہ ننھی بیٹی کو بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ جاں بحق بچی کی شناخت عنائیت فاطمہ کے نام سے ہوئی ہے، جو صرف 18 ماہ کی تھی۔

پولیس کے مطابق بچی کی والدہ آسیہ کوثر کی جانب سے درج کرائی گئی شکایت پر مقدمہ قائم کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں، تاہم افسوسناک طور پر ملزم حسن اقبال اسپتال سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ پولیس نے مختلف مقامات پر چھاپے مارنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

مدعیہ آسیہ کوثر نے بتایا کہ ان کے شوہر نے تقریباً آٹھ سال قبل دوسری شادی کی تھی اور ان کے چار بچے ہیں۔ وہ خود گھروں میں کام کر کے بچوں کی پرورش کرتی ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق، وقوعہ کے روز شام تقریباً چار بجے حسن اقبال نے اپنے بھائی کے نمبر سے فون کر کے کہا کہ عنائیت فاطمہ سیڑھیوں سے گر گئی ہے اور وہ فوری طور پر گھر پہنچیں۔ آسیہ جب گھر پہنچی تو حسن بچی کو لے کر پہلے ہی اسپتال جا چکا تھا۔

آسیہ فوراً بینظیر بھٹو اسپتال پہنچی، جہاں اسے اپنی بیٹی کی لاش سٹریچر پر ملی۔ بچی کے جسم پر واضح تشدد کے نشانات، خصوصاً چہرے اور کانوں پر سوجن اور زخم تھے، جس سے یہ شبہ مزید پختہ ہو گیا کہ موت حادثاتی نہیں بلکہ تشدد کے باعث ہوئی۔

مقتولہ کی بڑی بہن ابیرہ نے بھی پولیس کو بتایا کہ ان کے والد حسن اقبال نے عنائیت فاطمہ کو وحشیانہ انداز میں لاتوں اور مکوں سے پیٹا تھا۔ آسیہ کوثر نے مزید کہا کہ ان کا شوہر پہلے بھی بچوں پر تشدد کرتا رہا ہے اور گھر والوں کی روک ٹوک کے باوجود اس کا رویہ نہ بدلا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ عنائیت فاطمہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم مکمل کر لیا گیا ہے اور شواہد کی بنیاد پر قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ملزم کی تلاش جاری ہے اور پولیس کو یقین ہے کہ جلد اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔

یہ واقعہ نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ معاشرے کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے، جہاں ایک باپ، جو بچوں کے لیے محافظ ہوتا ہے، خود ہی قاتل بن گیا۔ عوامی حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملزم کو فوری گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *